08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط15
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر15
آج دن کو نور کی دوست اس سے ملنے آ گئی تھیں۔ کیسے راستہ بھول گیں تم سب نور نے مذاق میں موڈ بنا کر کہا۔
ملکہ عالیہ خود چلی گئی تھیں۔
اب پتہ لگا تو ہم آ گیں۔
نور کتنے اچھے دن تھے نہ پڑھائی والے ملنا گپ شپ اب تو کوئی کدھر تو کوئی کہاں۔
سہی کہا نور پریشانی میں بولی۔
نور آج سب مل کر مزے کرتے ہیں چل کہیں گھومنے جاتے ہیں۔
بندیا مجہے بابا نے باہر جانے سے منع کیا ہے۔
ہم بات کرتی ہیں۔ پھر وہ سب عثمان کے پاس گیں۔ انکل نور کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ہم شام سے پہلے آ جایں گے۔
ہمارا دل ہے مل بیٹھ کر پہلے کی طرح کچھ وقت گزاریں اور ویسے بھی ہم سب ساتھ ہوں گی۔
ٹھیک ہے بچو بس نور کو اکیلا مت چھوڑنا کہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔
ٹھیک انکل پھر نور تیار ہو کر ان کے ساتھ چلی گی۔ عثمان ان بچیوں کو منع نہیں کر سکا ان کے چہرے پر ایک آس تھی پر دل ڈوب رہا تھا۔
میں ناظم کو بتا دوں۔ پریشانی سے کال کرنے لگے۔ ناظم نے بات سنی پھر کچھ سوچ کر گاڑھی میں نکل پڑا۔
ہادی ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھا تھا وقت پاس کرنے میں کہ اسکو لڑکیوں کا ایک گروپ دکھا۔
اس نے بیزاری میں دوسری طرف دیکھا پھر ایک آواز پر جو اسی گروپ سے آیی ہادی نے فورا دیکھا وہ نور تھی ان میں بیٹھی ہنس رہی تھی۔
ہادی کو وہ ان سب میں پیاری لگ رہی تھی۔
بال بندھے ھوے پر کچھ بال سائیڈ سے چہرے کو پیارا کر رہے تھے۔
بلیو رنگ کے کپڑوں میں شہزادی لگ رہی تھی باقی سب اسکی کنیز۔
کاش نور تم ہماری طرح ہوتی۔
مجہے کیوں اچھا نہیں لگ رہا تمکو مارنا پر مام کا آرڈر ہے میں مجبور ہوں۔
سوچتے ھوے اسکی آنکھیں بھیگ گیں۔
یہ مجہے کیا ہوا میں نور کی خاطر رو رہا ہوں پر کیوں۔
اس کیوں کا جواب اس کو نہیں ملا۔
سارا وقت چہرہ چھپا کر نور کو دیکھتا رہا بات سنتا رہا ہادی کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔
کہیں اور جاتی ہیں۔
آؤ پھر وہ دریا کنارے گیں۔
وہاں پاؤں پانی میں ڈال کر ہنستیں پانی اچھالتی رہیں۔
ایک دوسرے کے پیچھے دوڑھنا پھر کھلکھلا کر ہنسنا کتنا اچھا لگ رہا تھا ان سب کو ساتھ چہپے ہادی کو اور ایک اور بندہ بھی ہنس رہا تھا سب دیکھ کر وہ تھا ناظم۔
بہت دن بعد اس نے نور کو خوش دیکھا تھا ۔
وہ بھی خوش تھا اور دعا کر رہا تھا اسکی خوشی کی۔
اندھیرا ہو رہا ہے اب ہم چلتی ہیں نور۔
چل تجھے گھر چھوڑ دیں۔ سب اٹھ پڑیں۔
ناظم کو کال آیی۔
آتا ہوں ابھی۔ فورا بھاگا۔
اس کی ماں سیڑھی سے گر گئی تھی ناظم انکو ہسپتال لے گیا اس سوچ سے کہ ابھی وہ سب ساتھ ہیں۔
ڈاکٹر نے ٹریٹمنٹ شروع کر دی تھی۔
اب ماں کو دیکھ کر جاتا ہوں نور کے پاس۔ ناظم سوچ رہا تھا۔
سڑک پر پہنچ کر ساتھ نور کا گھر تھا چلی جاؤ گی نہ نور وہ سامنے تمہارا گھر ہے۔
ہاں کہ کر نور اتری۔
وہ سب گاڑھی بھگا لے گیں۔
نور مسکرا کر گھر کی طرف چل پڑی۔
اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دی نور کو۔
مڑ کر دیکھا کوئی نہیں تھا۔
وہم ہوگا چل پڑی۔
ایک دفع پھر پیچھے دیکھا ہادی کھڑا تھا۔
نور کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں۔
بھاگ پڑی ہادی بھی پیچھے بھاگا اس وقت رینا بھی گھر سے چل پڑی تھی کہ تماشا دیکھوں گی ہادی کے ہاتھ سے اسی کے گھر والوں کو مروا کر۔
ناظم کی ماں اب خطرے سے باہر تھی۔
ناظم نے سوچا ایک چکر گھر سے لگا آؤں۔
عثمان بوڑھا ہو چکا تھا ناظم ہی ان کا سہارا تھا اب۔ ساری دیکھ بھال وہی کرتا تھا۔
نور نے پتھر اٹھا لیا تھا پاس مت آنا ورنہ۔ ۔۔۔
تم کیا سمجھتی ہو اس پتھر سے روکو گی مجہے ہادی ہنسا۔
نور نے ہادی کے سر کا نشانہ لے کر پتھر مارا اور کاروں کے بیچ چھپ گئی۔
پتھر سے ہادی کے سر سے خون بہنے لگا تھا۔
تمہیں تو میں چھوڑوں گا نہیں۔
نور کو تار نظر آیی راستہ سے آتی ہوئی اسکا سرا جلدی سے کھمبے کی تار سے جوڑہنے لگی۔
ہادی ڈھونڈ رہا تھا نور کو۔
نور کھڑی ہو گئی اور پیچھے کی طرف قدم لینے لگی۔
ہادی جو کہ نور کے پاس آ رہا تھا بنا نیچے دیکھے تار سے کرنٹ لگ گیا۔
اچھل کر گرا اسی دوران نور گھر پہنچ گئی تھی۔
ابو ابو چلانے لگی اور عثمان سے لپٹ گئی۔
کیا ہوا بیٹا نور ڈری ہوئی تھی ابو وہ ہادی باہر مجہے مارنے آیا ہے
۔دروازہ توڑنے لگا کوئی۔
عثمان اب بوڑھا تھا مقابلے پر خود اسکا اپنا بیٹا تھا۔ کیسا مقام تھا یہ۔
کیا کرتا آنکھیں بہ رہی تھیں اتنے میں باہر سے آوازیں آنے لگیں۔
عثمان نے دروازہ کھولا تو ناظم اور ہادی لپٹے لڑ رہے تھے۔
نور نے فورا گلدان اٹھایا اور پھر زور کا ہادی کے سر پر دے مارا۔
ہادی گر گیا تھا۔
پورا منہ خون سے بھرا ہوا جو سر سے بہ رہا تھا۔
عثمان چلایا میرا ہادی پھر ہادی کی طرف بڑھنے لگا تو نور نے پکڑ لیا۔
نہیں ابو۔
ہادی تم میرے بیٹے ہو نور کے بھائی ہو۔
ہادی نے سر پکڑ کر عثمان کو دیکھا اتنے میں رینا پہنچ چکی تھی۔
ہاہاہا۔ کیسے ہو عثمان۔ رینا ہنس رہی تھی۔
تمنے اچھا نہیں کیا رینا میرے بیٹے کو کیا بنا دیا۔ ہادی کبھی عثمان اور کبھی رینا کو دیکھتا۔
میری دوست جو میری بہن کی طرح تھی اسکا بدلہ لیا میں نے۔
اٹھو ہادی مار دو ان سب کو۔
ہادی میرا بیٹا ہے وہ کیسے مار سکتا ہے ہمیں۔
ہادی درد سے لیٹا پڑا تھا۔
میں تو ہوں نہ فورا عثمان کی طرف لپکی۔
ہادی لیٹے رو رہا تھا اپنے گھر والوں کو دیکھ کر۔ جب رینا نے عثمان پر حملہ کیا ناظم سے پہلے ہادی نے رینا کی ٹانگ کو پکڑ کر نیچے کھینچا۔
رینا گر گئی۔ ہادی نے اسکی گردن میں دانت گاڑھ دیے رینا کو مار ڈالا اور لڑ کھڑا کر اٹھا۔
رو رہا تھا۔ عثمان کی طرف آ رہا تھا کہ نور چیخی میرے ابو کے پاس مت آنا۔
میرے گھر والوں کو کچھ مت کہنا روتے ھوے بول رہی تھی۔
ہادی وہیں رک گیا۔
نور ہادی میرا بیٹا ہے عثمان گھٹنوں کے بل لڑھک کر بیٹھ چکا تھا۔
ابو وہ اب ایک درندہ ہے۔
اسنے آپ کو کچھ کہ دیا تو۔
ہادی کتنا مجبور کھڑا تھا۔
سامنے دیکھا حور تھی اسکی ماں۔
سب تھے پر وہ ان کے گلے نہیں لگ سکتا تھا وہ ڈر رہے تھے۔
ابو ہادی چلایا۔
ماں حور کو دیکھ کر پکارا۔
ناظم سائیڈ پر پریشان کھڑا تھا۔
میں کہاں جاؤں؟
اپنوں کے ہوتے میں تنہا رہ گیا ہوں کیوں کہ میں آپ جیسا نہیں ہوں۔ رو رہا تھا مجہے معاف کر دینا آپ سب۔
خنجر ہاتھ میں تھا۔
نہ آپ سب کے ساتھ رہ سکتا ہوں نہ آپ سب کے بنا جی سکتا ہوں۔
آپ سب کے لئے خطرہ ہوں کیوں کے میری خوراک ہی جدا ہے۔
خنجر اپنے سینے میں اتار دیا۔
عثمان بھاگا اپنے بیٹے کی طرف مجھے معاف کر دو بیٹے۔
میرے گناہ کی سزا تمکو ملی۔
عثمان نے ہادی کو سینہ سے لگا لیا حور نے ماتھا چوما۔
ہادی نے ماں کو دیکھا۔
حور کا ہاتھ پکڑا ۔
نور کو دیکھا جو پاس بیٹھی رو رہی تھی ۔
نور ہادی نے کانپتے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کئے۔
ہادی کو تیز سانس آنے لگا تھا۔
یکدم اسکا ہلتا جسم ساکت ہو گیا۔
سب رو رہے تھے۔
سائیڈ پر آس پاس کے لوگ جمع تھے اس وقت۔
ناظم نے سبکو سنبھالا۔
ہادی کو جانا تھا ناظم بولا
۔میں آپ کا بیٹا ہوں نہ۔ عثمان کے گلے لگا۔
حوصلہ کریں چلیں اٹھیں۔
ہادی کو قبرستان لے جایا گیا۔ سب غم گین تھے۔
یکدم آندھی آ گئی۔ کسی کو کچھ نہیں دکھ رہا تھا اس آندھی میں سب ادھر سائیڈ پر بیٹھ گئے کہ آندھی ختم ہو تو ہادی کو دفنایا جائے۔
جب آندھی کا زور ختم ہوا اب سب اٹھے دیکھا تو چارپائی خالی تھی۔ ہادی کا نام نشان نہیں تھا وہاں۔ سب خدا کی رضا پر واپس آ گئے۔ سب پریشان تھے کہ ہوا کیا۔جس کا اب تک کسی کو پتہ نہ تھا۔
پانچ سال بعد۔ ۔۔۔۔
نور اور ناظم کا بیٹا ہادی دادا کی گود میں کھیل رہا تھا۔ سب اس سے پیار کر رہے تھے۔
عثمان اب چپ ہو گیا تھا۔ سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ سب مسافر بھی چپ تھے۔
میانوالی آ گیا۔ کنڈیکٹر مسافروں سے بولا۔ عثمان اتر گیا۔ سب مسافر سوچ میں ڈوبے عثمان کے سکون کے لئے دعا گو تھے۔